Haalim; Episode 22 (Nemrah Ahmed)
حالِم؛ بائیسواں باب از نمرہ احمد
بائیسواں باب
وقت مہربان
اس کی بند آنکھوں کے پارصرف اندھیرا تھا۔ ذہن کا پردہ کسی بھی خواب سے خالی تھا۔
کھڑکی کے باہر کی کار کا ہارن سنائی دی تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھی۔ پھرارد گرد یکھا۔
وہ قدیم ملا کہ میں نہیں تھی۔ وہ کےایل کے ایک موٹل روم میں نیند سے جاگی تھی۔ اور نیند بھی ایسی جوخوابوں سے خالی تھی۔
وہ گز شتہ رات جونکر اسٹریٹ کے ایک مین ہول سے واپس اپنی دنیا میں آئی تھی۔ اور یہاں آ کے معلوم ہوا تھا کہ باقی ساری دنیا آگے بڑھ چکی تھی ۔ وہ پیچھے رہ گئی تھی۔ ایسے جنگجو کی مانند جو میدان جنگ میں پیچھے دیکھنے کی غلطی کی پاداش میں نمک کا مجسمہ بنادیا جاتا ہے۔ دوست اور دشمن.... ہارتے جیتتے جھنڈے گاڑتے آگے بڑھتے جاتے ہیں اور وہ نمک کا مجسمہ وہیں کھڑا رہ جاتا ہے۔ زمان و مکان کی قید سے آزاد۔
چھے سال۔ وقت نے میرے چھے سال چھین لیے۔ اس نے تنفر سے کھڑکی کے پار دیکھا جہاں نئے دن کا سورج طلوع ہورہا تھا۔
لوگ کہتے تھے وقت سب سے بڑا مسیحا ہوتا ہے۔ وقت زخم مندمل کر دیتا ہے۔ وقت یہ۔ وقت وہ ۔ لیکن کوئی تالیہ بنت مراد سے پوچھتا تو وہ کہتی کہ وقت قطعا مہربان نہیں تھا بلکہ وقت سے زیادہ ظالم کوئی نہیں تھا۔
وہ قدم ملا کہ سے جدید دنیا میں صرف ایک پوٹلی کے ساتھ آئی تھی جس میں چند زیورات تھے یا سونے کے سکے۔ جدید زمانے کی کرنسی اس کے پاس نہ تھی لیکن اسے اپنے چند کریڈٹ کارڈز کے نمبرز یاد تھے ۔ رات جب اس نے انہیں استعمال کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment